رضوان احمد ۔۔۔ بھارت میں ایک پاکستان ہے مگر وہاں کوئی مسلمان نہیں رہتا

بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع بہار کے ضلع پورنیہ سے تقریباً 30کلو میٹر کی دور ی پر چھوٹا سا گاؤں آباد ہے۔ اس کے ارد گرد ارریہ اور کشن گنج کا علاقہ ہے۔ یہ بہت ہی چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں صرف دو درجن گھر ہیں اور یہ سب کے سب قبائلی یعنی آدیباسی ہیں۔ اس گاؤں میں کوئی مسجد، مندر، مدرسہ، اسکول اور سرکاری دفتر بھی نہیں ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بے حد پسماندہ گاؤں ہے۔مگر اس کا ماحول بہت پر سکون ہے۔بھارت پاک کے درمیان کتنی ہی تلخی پید اہو جائے اس گاؤں کے لوگ اس سے اثر انداز نہیں ہو تے۔

اس گاؤں کا نام ’پاکستان‘ ہے۔

1947ءسے قبل اس گاؤں کے تمام ہی افراد مسلمان تھے، لیکن تشکیلِ پاکستان کے بعد یہاں کے تمام افراد دھیرے دھیرے مشرقی پاکستان ( اب بنگلہ دیش ) ہجرت کر گئے۔ مسلم اکثریت کے سبب اس گاؤں کا نام پاکستان رکھا گیا تھا، مسلمان تو چلے گئے لیکن گاؤں کا نام پاکستان ہی رہا۔

اس گاؤں کے تقریباً تمام افراد ناخواندہ ہیں اور انہیں ہندوستان پاکستان کے تلخ و ترش رشتوں کے بارے میں زیادہ واقفیت نہیں ہے۔ لیکن کچھ افراد باشعور ضرور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کب جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی آتی ہے تو ان پر بھی ایک طرح کا نفسیاتی دباؤ ہوتا ہے۔

 یہ گاؤں شری نگر بلاک میں پڑتا ہے۔ اس کے بلاک افسر ونے کمار پنکج کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو اس گاؤں کے نام پر اعتراض ہو لیکن سال ہا سال سے اس گاؤں کا نام سرکاری دستا ویز ات میں پاکستان ہی درج ہے اور اس سے تبدیل کرنے کی کبھی کوئی تجویز ان کے سامنے نہیں آئی ہے۔

اس گاؤں کے ایک ضعیف شخص جے پال سارنگ کا کہنا ہے کہ در اصل اس گاؤں میں پہلے مسلمان رہا کرتے تھے لیکن مشرقی پاکستان ہجرت کرنے سے قبل ان لوگوں نے اپنی زمینیں او رمکان ہم لوگوں کے سپرد کر دی تھیں،اس لیے ہم نے کبھی بھی اس گاؤں کا نام تبدیل کرنے کے بارے میں نہیں سو چا۔ لیکن جب بھارت پاک کے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں تب ہم لوگوں پر کچھ باہر کے لوگوں کا دباؤ ہو تا ہے۔ اس کا نام تبدیل کروا دیا جائے۔

اسی گاؤں کے ایک اور عمر دراز شخص سبل ہمبرم کا کہنا ہے ”ہمارے آبا و اجداد یہاں کے مسلمانوں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے تھے ملک کی تقسیم کے بعد جب وہ لوگ مشرقی پاکستان ہجرت کرنے لگے تو انہوں نے اپنی زمینیں ہمارے آبا و اجداد کے حوالے کر دیں اور ان کے اسی احسان کے بدلے ہمارے آبا و اجداد نے اس گاؤں کا نام پاکستان ہی رہنے دیا۔‘

پورنیہ ضلع کے ویر پور پنچایت میں واقع پوکھریا گاؤں کے 76سالہ حبیب میاں کو اس گاؤں کے وہ تمام واقعات اب بھی یاد ہیں جب یہاں کے باشندے مشرقی پاکستان ہجرت کر رہے تھے۔ وہ اپنے بچپن کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ”تقسیم ہند کے دوران میں کوئی 15سال کا ہوں گا مجھے یاد ہے کہ پورا گاؤں مسلمانوں کا تھا لیکن 1947ءسے 1950ءتک رفتہ رفتہ یہاں کے لوگ ہجرت کر کے مشرقی پاکستان چلے گئے۔ جس وقت یہ لوگ اپنی سر زمین چھوڑ رہے تھے تو اس وقت کی باتیں زیادہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔“

پورنیہ صدر سے تقریباً 30کلو میٹر پر واقع یہ گاؤں تمام بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔ یہاں پہنچنے کےلیے ایک ندی کو پہلے کشتی سے اور پھر پگڈنڈیوں کے راستے پیدل عبور کرنا پڑتا ہے۔ اس گاؤں میں بجلی، سڑک، پانی، اسپتال، اسکول جیسی کوئی سہولت نہیں ہے۔ بلاک ڈیولپمنٹ افسر ونے کمار پنکج کہتے ہیں ”یہاں پرائمری اسکول نہیں ہے مگر یہاں کے دو چار بچے قریب کے گاؤں کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کےلیے جاتے ہیں۔ اب ہماری کوشش ہے کہ اس گاؤں میں ایک پرائمری اسکول کھولا جائے اور کچھ ترقیاتی پروگرام بھی چلائے جائیں۔ “

شری نگر پولس اسٹیشن، جس کے تحت یہ گاؤں آتا ہے اس کے پولس اسٹیشن افسر انچارج سوم پریہ درشی کا کہنا ہے ”ا س گاؤں کے لوگ بے حد امن پسند ہیں یہاں سے آج تک معمولی جرم کی بھی کبھی کوئی خبر نہیں آئی۔ یہ لوگ جرائم سے بہت دور ہیں۔“

اس علاقہ کے قانون ساز کونسل کے رکن پردیپ داس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ندی پر ایک پل بنانے کی تجویز حکومت کے سامنے پیش کی ہے تاکہ اس گاؤں کو صدر مقام سے جوڑا جا سکے اور وہاں بھی ترقی کی روشنی پہنچ سکے۔

 پورنیہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ چیرو ویلو کہتے ہیں کہ یہ ایک دو ر افتادہ گاؤں ہے اور ابھی وہاں ترقی کےلیے بہت کچھ کیا جانا ہے۔
اس گاؤں کے زیادہ تر افراد کی گزر بسر کھیتی باڑی پر ہو تی ہے۔ کیوں کہ زندگی گزارنے کا ان کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ دنیا کی ترقی سے تقریباً ناواقف ہیں۔ گاؤں کے سرپنچ منوج کمار آہ بھرکر کہتے ہیں ”ہم لوگوں کی زندگی بس ایسے ہی گزر رہی ہے۔“

Related posts

Leave a Comment